آب گم کی تلاش اور میں
آب گم کی تلاش اور میں
گزشتہ کل، بعد نماز فجر، میں اپنی عادت شریفہ کے مطابق بستر استراحت پر آیا اور سو گیا، دو ایک گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی تو سر میں درد، آنکھوں میں تھکن، ناک سے پانی کا تسلسل جاری اور دماغ سے دماغی فضلات وافر مقدار میں باہر آ رہے تھے، جسم کی گردش تحریک ماند پڑ چکی تھی، گویا کہ نزلے کا چھاپ، اچھا خاصا چھپ چکا تھا، زوال کا وقت ہوا چاہتا تھا، میں اٹھا اور بہ مشکل دوا خانے تک پہنچا، طبیب نے اپنی دو تین انگلیاں جب نبضِ دست پر رکھیں، تو عرض کیا کہ نزلے کے ساتھ ساتھ بخار کا بھی اثر ہے خیر دوا لے جائیے، ان شاءاللہ شفا یاب ہو جائیں گے، واپس آیا، دوا پیا، اور دوبارہ بستر پر چت ہو گیا۔
دوا سے تسلی بخش آرام نہ ملا، میں کروٹیں بدلتا رہا، مغرب تک کچھ یوں ہی کیفیت رہی، ایک طرف میں نزلے اور بخار کی گرفت میں تھا، لیکن دوسری طرف میرے خیال و فکر کہیں اور ہی گم تھے، میں اپنے باغیچۂ فکر میں مشتاق احمد یوسفی کو مسلسل تفریح کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، لیکن مجھ میں اتنی سکت نہ تھی کہ میں آں جناب سے جا کر ملاقات کر سکوں اور نہ ہی آواز اتنی پر زور رہ گئی تھی کہ آواز دے سکوں، میں اسی خیال میں گم، ملاقات کے تدبیریں سوچتا لیٹا رہا، یک لخت محترم عبدالرحمن قاسمی کا کتب گاہ کھلا دیکھا تو عرض کیا کہ یوسفی صاحب آپ کے یہاں آرام فرما ہیں کیا؟ ارشاد ہوا، ہاں ۔ آپ کے اس فرحت بخش جواب نے، طبیعت میں قدرے تازگی پیدا کر دی، اتنا سننا تھا کہ طبیعت میں روانی آئی، ملاقات کا ارادہ ہوا، لیکن مشتاق یوسفی صاحب جیسی عظیم شخصیت کے استقبال میں اکیلے جانا مناسب نہیں تھا، میں نے اپنے ایک رفیق درس مسیح الدین قاسمی سے درخواست کی، تو محترم آمادہ ہو گئے، چند وقفے میں ہم دونوں، مولانا عبدالرحمن کے کتب گاہ پر حاضر ہوئے۔
دل میں ایک عجب سی بے چینی تھی، نگاہیں محو جستجو تھیں، کہ یوسفی صاحب کہاں ہیں؟ میرے اس تڑپ اور بے چینی کو جب عبدالرحمن صاحب نے محسوس کیا تو اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ یوسفی صاحب وہ ہیں، جیسے میری نظر یوسفی صاحب پر پڑی تو میں خوشی سے پھولے نہیں سمایا، بڑے ہی ادب و احترام سے آگے بڑھا، مصافہ اور معانقہ کیا، حال و احوال اور شکل و شبہات سے یوسفی صاحب ٹھیک ٹھاک محسوس ہو رہے تھے، میں یوسفی صاحب کو پیہم دیکھتا ہی رہا، پھر کیا ہوا کہ مجھے اپنی یاداشت پر شک ہونے لگا، میں یہ بھی بھول بیٹھا کہ مجھے کچھ ہوا ہے یا نہیں۔ چناں چہ دس پندرہ منٹ کے بعد یوسفی صاحب نے مجھ ناچیز کو بھی اپنی فہرست شاگردی میں جگہ دے دی، آخرش مولانا عبدالرحمن صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم دونوں کتب گاہ سے یوسفی صاحب کو لے کر روانہ بہ جامعہ ہو گئے۔
از قلم : نازش نہال
بہ روز چہار شنبہ ۱۵ جنوری ۲۰۲۵ء